بتی گُل کر دی اردو کہانی




بات اتنی بھی عام نہ تھی یہ پہلی دفعہ ھوا تھا کہ کسی کوٹھے پہ بارات آئی تھی ورنہ ان گلیوں چوباروں نے تو ہمیشہ گھنگرووں کی چھنکار کے علاوہ کچھ نہ سنا تھااسی لیے تو آج پورے بازار میں جشن کا سا سماں تھا اور شاید پہلی بار ہی اس بازار میں کوئی دھندہ نہیں ھو رہا تھااکا دکا جو گاہک آئے تھے وہ بھی حیرت سے کوٹھے پہ چڑھی بارات کودیکھنے میں مشغول ھو گئے تھےگلی میں کھڑا ماما پپو بھی آج نیا سوٹ پہنے بارات کے استقبال میں پیش پیش تھا ماما پپو کی تو آج سج دھج ہی الگ تھی ہمیشہ کی طرح آج گلے میں مفلر بھی نہیں تھا اور نہ ہی بایئں ہاتھ کی آخری انگلیوں میں دبا ہوا کوئی سگریٹ البتہ غیر ارادی طور پر اس کی ہاتھ کی مخصوص جنبش سے ایسا ہی لگتا تھا جیسے سگریٹ کی

راکھ جھاڑ رہا ھونام تو اس کا نہ جانے کیا تھا لیکن اس محلے میں سب اسے چاندنی ہی کہتے تھے

معصوم چہرہ جھیل سی گہری آنکھیں اور خراماں خراماں سی مست چال دیکھنے والے دیکھتے تو سانس لینا بھول جاتےچند دنوں میں ہی اس چاندنی کی چاندنی کی بازگشت بہت دور دور تک پھیل گئی۔ بڑے بڑے سیٹھ بڑی بڑی گاڑیوں میں اوراپنی بڑی بڑی توندوں کے ساتھ چاندنی بائی کے در پہ حاضری دینے آتے لیکن چاندنی بائی بھی بڑی گھایاں تھی

جانتی تھی کہ جس دن چاندنی کی نتھ کھل گئی اسی دن چاندنی کی چاندنی بھی ماند پڑ جائے گئی 

اسی لئے اس نے چاندنی کی نتھ کھلائی نہ کی اور اسکو صرف کوٹھے پر رقص کیلیے محدود کر دیاچاندنی نے رقص کیا شروع کیا کہ اس کے چرچے چار سو پھیل گے وہ موٹی توندوں والے سیٹھ جو اس کو حاصل نہ کر پائے اب ہررات رال ٹپکائے باقاعدگی سے کوٹھے پر آنے لگے اور چند ہی دنوں میں یہ تعداد اتنی بڑھ گئی کہ کوٹھے پہ جگہ کم پڑجاتی اور نیچے گلیوں میں جا بجا گاڑیوں کی قطاریں لگ جاتی بارات اب اس محلے کے پہلے نکڑ پہ پونچ چکی تھی رنگ برنگی سجی سجائی گلیاں کسی خاص شہزادے کی آمد کا پتہ دے رہی تھیں

گلی کے دونوں جانب کے بالہ خانوں پہ بھی کافی رش تھا اور گاہے بگاہے ان بالہ خانوں سے گلاب کی پتیوں اور عرق گلاب 

کا فوارہ سا پھوٹتا اور باراتیوں کو خوشبو سے نہلا جاتا بارات جوں جوں نزدیک آرہی تھی ماما پپو بھی پھرتیلا ہو رہا تھا اس کے ہاتھ کی مخصوص جنبش بھی بڑھ گئی تھی آج بارات کا پورا انتطام ماما پپو کی ذمہ داری تھی اور آج شاید زندگی میں پہلی دفعہ اس کے زمے ایسا کام لگایا گیا تھاجس کو کرنا اسے اچھا لگ رہا تھاوہ سجاد کا کسی کوٹھے پہ پہلا دن تھا اور شاید چاندنی کا آخری سجاد سندھ کے کسی وڈیرے کے بیٹے کا دوست تھا جو اپنے دوست کے ساتھ پھلی دفعہ کسی کوٹھے پہ آیا تھااور یہ کوٹھا چاندنی بائی کا تھاپروگرام تو ختم ہو گیا اور وہ اپنے دوست کے ساتھ واپس آگیا لیکن اپنا دل وہ بالے خانے پہ ہی چھوڑ آیا تھابارات اب مخصوص حویلی میں پونچ چکی تھی جہاں باراتیوں کا نہایت گرم جوشی سے استقبال کیا گیادولہے کو ایک مخصوص کرسی پہ بٹھا دیا گیا تھا اور شادی کی دیگر رسومات کا سلسلہ بھہ شروع ھو گیا تھاچاندنی کو گھنگریالے بالوں والا سجاد بہت اچھا لگا گویا دل میں پیوست سا گیا

محبت کسی خاص طبقے کی میراث نہیں ہوتی یہ ہر دل میں کسی کونے کھدرے میں کنڈل مار کہ چھپی بیٹھی ہوتی ہےکسی ناگ کی طرح جو اپنے بل میں زمین کی حبس سے گھبرا کر جیسے باہر نکل آتا ہےیا شاید کسی ننھے سے پودے کی مانند جب اسے نمی اورکھاد میسر آتی ہے تو زمیں کا سینہ چیرتے ہوے باہر آجاتا ہے اسی طرح بُکل میں لپٹی محبت کو بھی جیسے ہی ایسا کوئی ماحول میسر آئے وہ اپنا پھن پھیلائے باہر آ جاتی ہےمحبت کب کہاں اور کس سے ہو جائے پتہ ہی نہیں چلتااس کا ثبوت سجاد کا وہ خط تھا جو پچھلی دفعہ جاتے جاتے وہ دے گیا تھاجس میں اس نے اپنی شدید محبت کا اظہار کیا تھا اور اسے اپنانے کی خواہش کی تھی

اس خط نے گویا بارش کا کام کیا اور محبت کا ناگ اپنے بل کی حبس براداشت نہ کر سکا یوں پہلی دفعہ چاندنی نے ان کوٹھوں کی روایات سے بغاوت کرنے کا فیصلہ کر لیا

اگلے ہی دن چاندنی نے  بائی سے دوٹوک بات کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب چندن بائی نے نہ صرف اپنی خوشی کا اظہار کیا بلکہ سجاد سے خود ملنے کا فیصلہ کر لیا وہ صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ سجاد سنجیدہ ہے یا دل لگی کر رہا ہےاور کیا آنے والے حالات کا مقابلہ کر سکے گا کہ نہیں یوں چند ملاقاتوں کے بعد تاریخ مقرر کر دی گئی ریل گاڑی میں اکا دکا مسافر تھے اور چاندنی سجاد کے سنگ کراچی کی طرف رواں دواں تھی سجاد کسی فرم میں ملازم تھا اور اسی فرم کے مالک نے ایک بہت اچھے مکان کا بندوبست کر دیا تھابقول سجاد کہ اس کا باس اس کا بھائی بنا ہوا تھاآج اس کی زندگی کی وہ رات تھی جس کی تمنا ہر لڑکی کو ہوتی ہے کمرہ پھولوں اور روشنیوں سے بقعہ نور بنا ہوا تھاآج وہ بہت خوش تھی ماضی قصہ پارینہ بن چکا تھااور اب وہ اس کو یاد بھی نہیں کرنا چاھتی تھی وہ آنکھیں بند کیے انہی حسیں خیالات میں کھوئی ہوئی تھی کہ اسے ایک آھٹ سی سنائی دی وہ شرم سے تھوڑی سمٹ سی گئی مگر اپنی آنکھیں نہیں کھولیں شرم سے آس کا رنگ مزید گلابی ہو گیا تھاشرم اور گھبراہٹ سے اس کے ہاتھوں اور ہونٹوں پہ کپکپی سی طاری تھی سنومیرا نام فرقان ہے میں سجاد کا باس ہوں اس کے بعد کے الفاط اس کے کانوں میں سیسہ پگھلاتے ہوئے اس کی روح تک کو جھلسا گیےاس نے حیرت و بے بسی سے پہلی دفعہ چہرا اٹھا کہ آنے والے کو ایک نظر دیکھادو موٹے موٹے آنسو اس کی آنکھ سے گرےاک دبی دبی سی سسکی کی آواز گونجی اور اس نے ہاتھ بڑھا کہ بتی گل کر دی