میں نئی نویلی دلہن


شادی کے ایک ماہ بعد ہی خالد کی چھٹی نہ ہونے کی وجہ سے سعودی عرب واپس جانا پڑا  میرے اصرار کرنے پرخالد نے کفیل کو فون کیا کہ ایک ماہ کی چھٹی بڑھا دیں تو کفیل نے کہا تمہیں تو پتا ہے کہ تمہارے بنا کام نہیں چلتا اگر تم بیوی کے بنا نہیں رہ سکتے تو بتا دو میں کسی اور آدمی کا بندوبست کر لوں اتنی بات کہہ کر فون بند کر دیا خالد کفیل کی یہ بات سن کر پریشان ہو گئے  لیکن مجھے حوصلہ دیتے ہوئے بولے تم پریشان نہ ہو میں تمیں جلد ہی اپنے پاس بلا لوں گا خالد چلے گئے کچھ عرصہ بعد خالد نے کال کی کہ میں نے کفیل سے تمارے ویزے کے بسرے میں  بات کی ہے انشااللہ جلد ہی ویزہ مل جائے گا میرے سسرال بیت اچھے تھے انھوں نے مجھے منع نہیں کیا بلکہ میری حوصلہ افزائی کی لیکن ہمیں کیا پتا تھا کہ آنے والے وقت میں ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے ویزہ آنے کے بعد جس دن میں نے جانا تھا خالد نے مجھے کال کی کہ میں تمہیں لینے نہیں آسکوں گا دراصل مجھے کفیل کا سامان لے کر ایک ہفتے کیلیے کویت جانا ہے اس لیے ایرپورٹ پر میرا کفیل اور اس کی بیوی تمیں لینے آئیں گے تم پریشان نہیں ہونا وہ تمہیں اپنے گھر لے جائیں گے اور پھر جلد ہی ہماری ملاقات ہو گی خالد کی یہ بات سن کر میں کافی زیادہ پریشان ہو گئی لیکن مجبوری تھی کیا کرتی جانا تو تھا خالد نے اپنے کفیل کی تصویر مجھے بیجھ دی اور میری تصویر کفیل کو بھیج دی تانکہ ہم ایرپورٹ پر ایک دوسرے کو پہچان سکیں میں جدہ ایر پورٹ سے باہر نکلی ہی تھی کہ ایک پچاس سالہ آدمی نے مجھے سلام کیا یہ وہی آدمی تھا جس کی خالد نے مجھے تصویر سینڈ کی تھی لیکن پریشانی کی بات تو یہ تھی کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ نہ تھی اور نہ ہی میں زبان کی وجہ سے اس کے ساتھ بات چیت کر سکتی تھی اس لیے چپ چاپ اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی وہ عربی شخص مجھے بار بار عجیب نظروں کے ساتھ دیکھ رہا تھا میں دل ہی دل میں ڈر رہی تھی کہ اتنی دیر میں گاڑی ایک محل نما گھر میں داخل ہوئی وہ نیچے اترا اور اس نے مجھے اشارہ کیا میں بھی گاڑی سے اتر گئی ملازم نے میرا سامان گاڑی سے نکالا اور مجھے کمرے میں چھوڑ کر ابھی واپس گیا ہی تھا کہ کفیل میرے کمرے میں داخل ہوا اس کے ہونٹوں پر شیطانی ہنسی اور وحشت صاف دکھائی دے رہی تھی اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا وہ کسی وحشی درندے کی طرح مجھ پر ٹوٹ پڑا اور پھر پوری رات میں اس درندے کی وحشت برداشت کرتی رہی میرا نہ تو اپنے خاوند سے رابطہ تھا اور نہ ہی میری فیملی کو اس بات کا علم تھا کہ میں پہنچ بھی چکی ہوں یا نہیں میں خاوند کے آنے تک یعنی ایک ہفتہ اس درندے کی ہوس کا نشانہ بنتی رہی جب میرا خاوند واپس آیا تو میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی میرے بتانے سے پہلے ہی میرے خاوند کو سب پتا چل چکا تھا وہ مجھے اپنے گھر لے آئے اور اگلی ہی صبح ہم نے عدالت سے رجوع کیا اور اپنے ویزے کینسل کروا کر واپس پاکستان آگئے یہ بات ہم دونوں میاں بیوی کے دلوں میں آج تک راز ہے ۔ختم شد!