رات کے گیارہ بج رہے تھے جب حمزہ اپنے کمرے میں آ یا.. سب کچھ سلیقے سے اپنی جگہ رکھا تھا. کوئی کہہ نہیں سکتا تھا یہاں کل رات کوئی طوفان آیا تھا. ردابہ نے حمزہ کے بیسمنٹ سے آنے سے پہلے اسے تکلیف دینے والی ہر چیر ہٹا دی تھی. چاہے وہ بے جان تصویریں ہوں یا جیتی جاگتی حیا.  لنچ کے بعد گھر سے نکلا وہ اب واپس آیا تھا. اس نے لائٹس آف کی ہوئی تھیں. روشن کمرے میں اسے کوفت ہوتی تھی. ابھی اسے آئے پندرہ منٹ گزرے تھے کہ دروازے کے باہر کسی کے قدموں کی آہٹ پر اس نے آنکھیں بند کر کے چہرے پر بازو رکھ لیا. آنے والے نے دروازہ کھولا. بھائی. آپ سو رہے ہیں؟ حمزہ کچھ نہیں بولا. وہ دوبارہ آہستہ سے درزازہ بند کر کے واپس چلا گیا. حمزہ نے منہ سے بازو ہٹایا. اور دروازے کی طرف دیکھا. دروازہ بند دیکھ کرا س نے ایک گہرا سانس بھرا.حمزہ کی زندگی میں سب تھا. پیسہ, دولت, نام, پیار کرنے والے رشتے جومشکل وقت میں اسے تھام سکیں. لیکن وہ سب سے بھاگ رہا تھا. خود سے بھاگ رہا تھا.  اگر حیا کو کچھ ہو گیا تو" یہ سوچ کر ہی اس کے رونگھٹے کھڑے ہو رہے تھے. وہ کس کس کو مارے گا. شاید سب کی لاشیں دیکھ کر ہی اسے چین آنا تھا.کافی دیر وہ یوں ہی لیٹا چھت کو دیکھتا رہا.اب وہ فون پر کسی کا نمبر ملا رہا تھا.ہاں کچھ پتا چلا؟ حمزہ نے چھوٹتے ہی پوچھا.  نہیں یار. ابھی ڈھونڈ رہے ہیں.اس کے گھر دیکھا؟ ہاں سب سے پہلے وہیں پتا کیا. لیکن وہاں تالا لگا تھا. ہمم..تو فکر نہ کر. جیسے ہی کچھ پتا چلتا ہے. میں تجھے فون کرتا ہوں. دوسری طرف علی تھا. حمزہ نے کچھ کہے بغیر فون رکھ دیا.ہیلو فضول آدمی!ہیلو. وہ سو رہا تھا جب اس کا فون بجا. سو رہے تھے؟ ہاں. وہ نیند میں بڑبڑایا.بتاؤ اوپر کیا ہے. اس نے عجیب سوال کیا. اوپر چھت ہے رانیہ. اس نے فون یوں ہی کان پر رکھ کر ہاتھ پیچھے کر لیا. اچھا بتاؤ 2+2 کتنے ہوتے ہیں. وہ شاید اسکی میتھ کا ٹیسٹ لے رہی تھی. مجھے نیند آرہی ہے تم کیلکولیٹر پر دیکھ لو. وہ بھی حمزہ تھا. رانیہ کا کلاس فیلو,دوست اور اب منگیتر. بتاؤ پلیز. 4 وہ اسی طرح نیند میں بڑبڑایا. چاند پر جائیں. تو زمین نیچے نظر آتی ہے یا اوپر. اب وہ فزیکس کا ٹیسٹ لے رہی تھی.آپ کا مطلوبہ نمبر سو رہا ہے. دو گھنٹے بعد وہ خود آپکو کال کر لے گا.کہہ کر حمزہ نے فون رکھ دیا. ابھی چند سیکنڈ گزرے تھے کہ فون دوبارہ بجا.اس نے فون کان سے لگایا. رانیہ قسم سے.. اس کی بات ادھوری رہ گئی تھی.ہیپی برتھ ڈے ٹو یو.ہیپی برتھ ڈے ٹو یو. ہیپی برتھ ڈے پیارے لڑکے. رانیہ اس کے لیے برتھ ڈے سانگ گا رہی تھی.اس نے وال کلاک پر نگاہ ڈالی. پورے بارہ بجے تھے. رانیہ نے گانے کی صورت میں شکریہ ادا کیا وہ مسکرایا. تھینک یو پیاری لڑکی.اس نے وہیں سے گانا پکڑا اور پھر رانیہ کے انداز میں ہی اسے شکریہ کہا.اس کے اس انداز پر رانیہ کا دل پیار سے بھر گیا تھا. لو یو. ان دو لفظوں میں رانیہ نے اپنی جان رکھ دی تھی. لو یو ٹو. آنکھیں بند کیے وہ اس کے پیار کو محسوس کر رہا تھا. ان الفاظ کے آگے کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں. کافی دیر وہ چپ ایک دوسرے کے بولنے کا انتظار کرتے رہے. کیمرہ آن کرو. رانیہ بولی تھی.کیا دیکھو گی. آنکھیں بدستور بند تھی. تمہیں. لہجے میں پیار تھا. ویسا ہی ہوں. ہاں تو میں کون سا کہہ رہی ہوں تمہارے سینگ اگ آئے ہیں. وہ بگڑی. حمزہ ہنسا. اچھا رکو. حمزہ نے کیمرہ آن کیا. حمزہ ہ ہ.. وہ دھیمے سے بولی. جی جناب.حمزہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا. میرا دل کر رہا ہے میں اڑ کر تمہارے پاس آجاؤں.آجاؤ. وہ مسکرایا. اچھا چلو سوچو میں تمہارے پاس ہوں. تکیہ گود میں دبائے وہ بھی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی. سوچ لیا. حمزہ کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی.  اندھیرے میں جگمگ کرتی ایل ای ڈی لائٹس. میز پر کیک اس کے ساتھ کینڈل.اپنی وائٹ ٹی شرٹ اور اس پر بلیو جیکٹ پہنے تم اور ہینڈسم لگ رہے ہو. اس نے ایک سانس میں منظر کشی کی. اور تم کہاں ہو. میں. میں نے کہاں ہونا ہے تمہارے پاس ہی ہوں. نہیں. تم تو نہیں ہو.وہ اسے تنگ کر رہا تھا. تو میں کہاں ہوں.را نیہ نے منہ بنایا. تم. تم میرے بازوؤں کی قید میں ہو. رانیہ نے مسکراہٹ چھپاتے سر جھکایا. وہ شرما رہی تھی. حمزہ بد ستور اسے اپنی آنکھوں کے حصار میں لیے ہوئے تھا. اب بولو. حمزہ نے اسے چھیڑا.تم برے ہو. وہ سمجھ گئی تھی. مزہ نے قہقہہ لگایا.اور تم ہمیشہ کی طرح بہت اچھی ہو.  وہ مسکرا رہا تھا. ہو از دس ہینڈسم بوائے. وہ چونکا. وہاں ردابہ تھی. اپنے خیال سے وہ باہر نکل آیا تھا. مسکراہٹ ہلکی پڑ گئی تھی.ماسی ی ی یہ سب ضروری ہے؟ آپ کو پتہ ہے مجھے اب یوں برتھ ڈے منانا اچھا نہیں لگتا. بچے گھر کا ماحول تین دن سے اتنا ٹینس ہے.شیری خوش ہو جائے گا اور تمہیں بھی اچھا لگے گا.ردابہ نے اسے شیشے میں دیکھتے ہوئے کہا.میں جا رہی ہوں. تم بھی جلدی سے آ جاؤ سب انتظار کر رہے ہیں.  وہ چلی گئ تھی.دو دن  وہ بے حد مصروف رہا تھا. اور اب جب وہ گھر آیا تو پورا اسکواڈ وہاں موجود تھا. حمزہ کی سالگرہ تھی. لاؤنج کو برتھ ڈے وینیو میں بدل دیا گیا تھا. اور ردابہ کے اصرار پر حمزہ چینج کرنے اوپر آیا تھا. شیشے کے سامنے کھڑا رانیہ کی پسند کی ڈریسنگ کیے وہ ماضی میں چلا گیا. دو دن بعد یا دس دن بعد وہ جب گھر جاتا رانیہ اس کا گزرا برتھ ڈے ضرور مناتی تھی. رانیہ کے بعد یہ پہلی بار تھا کہ وہ اپنی سالگرہ منا رہا تھا. یا کہا جائے ردابہ نے یہ ممکن کر دیا تھا.  سیڑھیوں سے نیچے لاؤنج تک مختلف پھولوں سے سجاوٹ کی گئی تھی. اور سیڑھیوں کے ساتھ کالے غبارے لگے ہوئے تھے. لاؤنج کے ایک کارنر میں میز لگا تھا.جس پر کیک, پیسٹریز, مختلف برتھ ڈے پراپس پڑے تھے. میز کے پیچھے دیوار پر گولڈن رنگ کا مصنوعی بیک گراؤنڈ تھا. صوفوں کو گھما کر میز کی طرف کر دیا گیا تھا. سفید ٹی شرٹ پر بلیو جیکٹ پہنے وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا کمرے سے باہر آیا. سو دی برتھ ڈے بوائے از ہیئر. حمزہ کو دیکھتے ہوئے شیری نے اعلان کیا. اہاں. ہینڈسم اینڈ دی ڈیشنگ پرسنالٹی آف دی ہاؤس از ہیئر. یہ شیروان تھا. کیسا ہے میرا شیر. علی نے حمزہ کو گلے لگایا. مجھے کیا ہونا ہے. تو سنا.. کام کہا تھا.آخری الفاظ حمزہ نے آہستہ کہے. ہو جائے گا. علی نے بھی اسی انداز میں جواب دیا.کہاں سے آئی ہو.اس کے سامنے چالیس پینتالیس سالہ آدمی بیٹھا تھا.یہ جگہ اس کے لیے اجنبی تھی. وہ گھبرائی ہوئی تھی. لاہور.اس نے مختصر جواب دیا. ہو آر یو؟آدمی نے میز پر پڑے کاغذوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا. حیا." وہ اپنی انگلیاں مسلسل مروڑ رہی تھی.آئی سیڈ ہو آر یو. نام نہیں پوچھا." اب وہ دراز سے کچھ اور فائلز نکال کر میز پر رکھ رہا تھا. سٹوڈنٹ." پھر ایک لفظی جواب آیا تھا."میں نے یہ نہیں پوچھا.تم سٹوڈنٹ ہو یاجاب کرتی ہو."جسٹ لیٹ می نو تم کون ہو." آدمی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا.وہ خاموش رہی اگر تم خود یہاں آئی ہوتی تو شاید میں تمہیں اس ٹریننگ کا حصہ بنانے سے پہلے سوچتا لیکن ڈاکٹر ہارون خود تمہیں اپنے سیشنز کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو میرے پاس کوئی چارہ نہیں." آدمی نے اپنے بازو میز پر رکھتے ہوئے دونوں ہاتھ کی انگلیاں آپس میں ملائی.وہ اب بھی کچھ نہیں بولی تھی.میں امید کروں گا جب تم یہاں سے جاؤ تو اس ایک سوال کا جواب لے کر جاؤ. " کہہ کر آدمی نے رسیور اٹھایا اور ایک نمبر ملا کر دوسری طرف سے رسپانس کا انتظار کرنے لگا.ہاں جنت  یہ لڑکی ہے. اسے بھیج رہا ہوں.اس کا نام ڈاکٹر ہارون کے سیشنز کے لیے رجسٹر کر دو.سب سے ملنے کے بعد کیک کاٹا گیا. سب حمزہ کو گھیرے کھڑے تھے. حمزہ نے سب سے پہلے کیک ردابہ کو کھلایا. جس نے جواباً ایک ٹکڑا حمزہ کے منہ میں ڈالا. تم جیو ہزارو سال. " شیری نے حمزہ کو کیک کھلایا. اور ہاتھ حمزہ کے گال پر لگا دیا. حمزہ نے منہ بسورتے ہوئے ٹشو سے گال پر لگا کیک اتارا.  ردابہ نے یہ لمحہ بھی کیمرے میں قید کر لیا تھا. کیک کاٹنے کے بعد کھانا سرو کر دیا گیا تھا.فریحہ , حمزہ اور علی ایک طرف بیٹھے تھے.اچھا تم حمزہ سے پوچھ لو. " وہ دونوں کسی بات پر بحث کر رہے تھے اور اب فیصلہ حمزہ پر چھوڑ دیا تھا کیوں بچوں کی طرح لڑ رہے ہو. " حمزہ کب سے بیٹھا ان کا منہ دیکھ رہا تھا. اسے لگتا ہے کہ میں اسے ٹائم نہیں دیتا.تو بتا ایسا ہے؟ " علی نے پوچھا. حمزہ نے ایک نظر اپنے دوست کی معصوم شکل اور پھر اس کی خوبصورت زوجہ کو دیکھا.علی ہمیشہ سب سے پہلے نکل جاتا ہے. کیوں کہ یا تو اس نے تمہیں تھانے سے پک کرنا ہوتا ہے یا ڈراپ کرنا ہوتا ہے. تو میرے خیال سے علی اپنا زرا سا بھی فارغ وقت تمہارے ساتھ ہی گزارتا ہے." تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس نے حقیقت بتائی. علی کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی تھی. "بس کرو حمزہ. تم بھی اسی کا ساتھ دو گے." فریحہ کا منہ بن گیا تھا. دوسری طرف کچھ فاصلے پر ردابہ, شیری اور سمایا بیٹھے تھے. تم نے شیری کے بجائے مجھے کیوں نہیں بتایا." ردابہ کی مخاطب سمایا تھی. بیٹا. حمزہ مجھے بہت پیارا ہے. اگر وہ تکلیف میں ہو گا تو میں برداشت نہیں کروں گی." ردابہ نے حمزہ کو دیکھا جو اب بھی علی اور فریحہ کا مسئلہ حل کروا رہا تھا. "میں نے شیری سے بات کی تھی. اس نے مجھے سنا ہی نہیں. مجھے لگا آپ کو بھی شیری کی طرح میرا حمزہ سر کے بارے میں یوں کہنا اچھا نہیں لگے گا." وہ صفائی دے رہی تھی یہ میرا لڑکا تو بدھو ہے. " ردابہ نے شیری کے سر پر چپت لگائی."ماسی. حمزہ بھائی بہت پیار کرنے والے ہیں. تو میں ان کے بارے میں کیسے یہ سب سنتا. " اس کے انداز سے حمزہ کے لیے پیار چھلک رہا تھا. سمایا اور شیری اس بارے میں تفصیلی ملاقات کر چکے تھے. اور شیری نے اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو ردابہ کو بھی بتائی تھی. تب سے ردابہ حمزہ کو لے کر فکر مند تھی. ابھی بھی وہ سمایا سے اسی بارے میں سوال جواب کر رہی تھی. بقول سمایا حمزہ کا ہر وقت ایز میں رہنا. کم ہنسنا. کم بولنا. غصے کا بھی کھل کر اظہار نہ کرنا. اس سب نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ شیری سے اس بارے میں بات کرے. وہ نارمل بی ہیو کرنے کے چکر میں کچھ زیادہ ہی پر سکون دکھتا تھا. اس کے علاوہ اس نے ایک دو بار حمزہ کو یوں ہی چیختے چلاتے سنا تھا. اس کی باڈی لینگوئج اور اس کے چہرے کے تاثرات مطابقت نہیں رکھتے تھے. وہ نارمل دکھتا تھا لیکن وہ نارمل تھا نہیں.شیری اٹھ کر چلا گیا تھا. ردابہ اب بھی بیٹھی سمایا سے حمزہ کے بارے میں مختلف پہلو ڈسکس کر رہی تھی. میں آپ لوگوں کا مسئلہ حل کروا سکتا ہوں." شیری نے حمزہ کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا.حمزہ جو پچھلے پونے گھنٹے سے ان کے درمیان صلح صفائی کروا رہا تھا. شیری کے اعتماد کو سراہے بغیر نہیں رہ سکا. تم ریلیشن شپ ایڈوائزر ہو.؟ حمزہ نے آگے ہوتے ہوئے اسے کہا. چاہے میں شادی شدہ نہیں ہوں لیکن ریلیشنشپ کو آپ سب سے زیادہ سمجھتا ہوں." وہ اب شیخی بکھار رہا تھا مجھے لگتا ہے آپ دونوں کو ہنی مون پر چلے جانا چاہئیے. " نان کو قورمے میں لگا کر اس نے منہ میں رکھا.علی اور فریحہ جو اب تک بحث کر رہے تھے اب ہونقوں کی طرح کھانے میں مصروف شیری کو دیکھ رہے تھے.اور بھی تم لوگوں کا کوئی مسئلہ ہو تو پوچھ لو بابا جی سے." حمزہ اب علی اور فریحہ کی حالت سے لطف اندوز ہو رہا تھا. ان کی حالت دیکھنے والی تھی.ماسی مجھے لگتا ہے اب شیری کے لیے کوئی لڑکی ڈھونڈ لینی چاہئیے.حمزہ نے سامنے آتی ردابہ سے کہا. اس کے ساتھ سمایا, زویان, شیروان سب آگئے تھے.نہیں پہلے حمزہ سر کے ہاتھ پیلے کروائیں.بھابھی آئے. دو چار بچے ہوں جو مجھے چاچو چاچو بلائیں. پھر میں سوچوں گا." شیری نے اگلے پانچ چھ سال کی پلاننگ بتائی.حمزہ کے تاثرات بدل گئے تھے."ارے تم.میرے بچے کی پرواہ نہیں کرو.. " ردابہ حمزہ کے سر پر کھڑے اسے پیار کر رہی تھی.حمزہ تکلفاً مسکرایا. ماسی. انیقہ کو بلوا لیں. لگے ہاتھوں شیری کی منگنی کر دیتے ہیں." حمزہ نے سب کی توجہ خود سے ہٹائی. شیری جو ابھی ریلیشن شپ ایکسپرٹ بنا بیٹھا تھا اب مدد کا طلب گار تھا.نہیں پلیز نہیں. " وہ کھانا بھول کر حمزہ سے رحم کی اپیل کر رہا تھا.ابھی تو تو نے کہا تو ریلیشن شپ کو سمجھتا ہے. " حمزہ کے ہتھے وہ چڑھ چکا تھا.ہاں تو ریلشن شپ ایڈوائس بندہ تب تک ہی دے سکتا ہے جب تک وہ خود اس جنجال سے دور ہو." شیری نے فلسفیانہ بات کی تھی. ماسی. آپ بلا لیں انیقہ کو. حمزہ نے فیصلہ سنا دیا تھا. اسلام علیکم ماں جی. وعلیکم اسلام.عورت نے اپنی عینک ٹھیک کرتے ہوئے اسے جواب دیا. وہ ادھیڑ عمر خاتون تھی جس نے دروازہ کھولا تھا.یہ ساتھ والے گھر میں کوئی نہیں رہتا؟" حمزہ نے احتیاطاً گھر والوں کا نام نہیں لیا تھا.نہیں.تم نے خریدنا ہے. تو انتظار کرنا پڑے گا. ان کے لڑکے سال بعد باہر سے آتے ہیں ان سے بات کر لینا. " عورت نے خود ہی مطلب نکالا. تو یہاں کوئی نہیں رہتا؟ مطلب ان کا کوئی رشتے دار وغیرہ.رہتا بھی ہو تو تم سے مطلب"  ادھیڑ عمر عورت نے اسے گھورا.نہیں مطلب تو کوئی نہیں.تو؟ "وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی. ماں جی میں خفیہ ادارے سے ہوں." حمزہ نے آہستہ سے کہا. تو میں کیا کروں؟حمزہ کو اس جواب کی توقع نہیں تھی. میں پولیس والا ہوں.؟ حمزہ کو لگا شاید عورت کے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے تو اس نے آسان الفاظ میں بتایا. کیا ہو؟ " عورت نے کان پر ہاتھ رکھا.پولیس والا." حمزہ نے قدرے اونچا کہا.شکل سے تو تم کوئی گنڈے موالی لگتے ہو.عورت نے اب کہ اس کو نیچے سے اوپر تک دیکھتے ہوئے کہا. کچھ دیر یوں ہی حمزہ کھڑا اس عورت کو دیکھتا رہا.یہ کیا چیز ہے؟حمزہ نے دل میں سوچا.گالیاں نکال رہے ہو مجھے. " عورت نے اپنی عینک کے اوپر سے اسے دیکھاگالیاں؟ " حمزہ کو یاد نہیں آیا کبھی اس نے ہوش و حواس میں کوئی گالی دی ہو.بی بی ہمارے ساتھ تعاون کریں. وہ کس عذاب میں پھنس گیا تھا.میں نہیں کرتی. کر لو جو کرنا ہے.ہاں. " حمزہ اس عورت کی دیدہ دلیری پر حیران تھا. تم جیسے لڑکے یوں ہی آتے ہیں محلے کی عورتوں کو چھیڑنے." حمزہ کو خاموش دیکھ کر اس نے دوبارہ منہ کھولا.حمزہ کو لگا کسی نے اس کے سر پر کچھ گرا دیا ہو.کہیں تم فوزیہ کی لڑکی کو نکالنے تو نہیں آئے؟. بہتری بار میں نے اس کو یوں ہی ایسی گاڑی میں آتے جاتے دیکھا ہے.اس نے حمزہ کی گاڑی کی طرف اشارہ کیا. اور شکل سے بھی تم مشٹنڈے ہی لگتے ہو.عورت نے منہ بنایا.حمزہ کو اپنا سر گھومتا محسوس ہوا.ایسا کامپلیمنٹ اسے کبھی کسی نے نہیں دیا تھا.اماں کون ہے.حمزہ نے کچھ کہنے کو منہ کھولا تھا کہ پیچھے سے ایک آدمی نمودار ہوا.جی؟ کس سے ملنا پے آپکو؟"  آنے والے نے پوچھا. ہیلو. آئی ایم فرام انٹیلیجنس.حمزہ نے اسے اپنا کارڈ دکھاتے ہوئے ہاتھ بڑھایا. ہاؤ کین آئی ہیلپ یو؟" لڑکے نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھاما.یہ آپ کے ساتھ والے بنگلے میں کوئی نہیں رہتا؟" حمزہ نے مطلب کا سوال کیا. رہتے تھے. لیکن ایک مہینہ پہلے ان کی لڑکی کہیں غائب ہو گئی تھی. " آدمی نے کہا.بڑھاپے میں باپ کی کمر توڑ دی منحوس ماری نے . بڈھا  بھی دو دن بعد چل بسا." ادھیڑ عمر عورت بولی تھی.تو وہ لڑکی واپس نہیں آئی؟" اس نے لڑکے سے پوچھا.ارے کاہے کو آتی. کوئی واپس آنے کے لیے تھوڑی نا گھر سے بھاگتا ہے." عورت منہ سے خرافات نکال رہی تھی.حمزہ کا اندازہ غلط نہیں تھا. ایسے کیسز میں پچانوے فیصد لوگ لڑکی کو قصور وار ٹھہرا دیتے ہیں. اور قبول کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اماں تو اندر جا. آدمی نے عورت سے جو غالباً اس کی ماں تھی کہا. ہاں ہاں جا رہی ہوں. پر یاد رکھیو. یہ ہی لڑکا فوزیہ کی لڑکی کو بھگائے گا. حمزہ کا دل چاہا وہ اپنا سر دیوار میں مار دے. معاف کیجیے گا ان کا ذہنی توازن تھوڑا ٹھیک نہیں ہے." آدمی شرمندہ تھا. اٹس اوکے.وہ بمشکل مسکرایا. تھینک یو.: دوبارہ ہاتھ ملاتا وہ واپس گاڑی میں آکر بیٹھ گیا. اور اب وہ پولیس اسٹیشن جا رہا تھا. حمزہ پولیس اسٹیشن گیا تھا تا کہ وہ فریحہ سے حیا کی گمشدگی کے بارے میں ہوئی جانے والی پیش رفت پوچھ سکے. فریحہ وہاں نہیں تھی. پھر اس نے سوچا وہ علی سے مل لے لیکن اس کا دل نہیں چاہا اور وہ واپس آگیا تھا.وہ لاؤنج میں بیٹھا ٹی وی چینلز بدل رہا تھا جب ردابہ اپنے کمرے سے باہر آئی. جلدی آگئے تم." اپنے بال بن کی شکل میں باندھتے ہوئے وہ حمزہ کے قریب آئی. جی. " اس نے ٹی وی سے نظر نہیں ہٹائی تھی. تم پریشان ہو؟ " وہ حمزہ کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی. نہیں تو. " اس نے گردن موڑ کر ردابہ کو دیکھا اور پھر دوبارہ سیدھا ہو گیا. میرا بچہ مجھ سے ناراض ہے.؟" ردابہ نے پیار سے اس کے بالوں کو ہاتھ لگایا. نہیں. میں کیوں کسی سے ناراض ہوں گا.اس نے ردابہ کی طرف نہیں دیکھا تھا. وہ یوں ہی صوفے کی پشت پر کہنی ٹکائے اسے دیکھتی رہی. حمزہ کافی دیر یوں ہی اس کا دیکھنا اگنور کرتا رہا. ماسی. آپ ایک بار مجھ سے پوچھ تو لیتی. " جب وہ ردابہ کو اور اگنور نہیں کر سکا تو وہ اس کی طرف مڑا. آپ نے حیا کو کیوں گھر سے نکال دیا؟ آپ مجھ سے پوچھتیں .بات کرتیں. یہ باتیں تم آج کیوں کر رہے ہو؟ اٹس بین آ ویک ناؤ. " وہ پر سکون تھی. تو کیا کروں میں." وہ بے بس دکھ رہا تھا.تمہیں اس کی پرواہ ہے؟ " ردابہ سنجیدہ تھی. مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے. لیکن میں اس کو وہاں سے نکال کر لایا تھا. اس سے نکاح کیا تھا میں نے. " اس نے نکاح پر زور دیا تھا. ڈز دس نکاح میٹر ٹو یو؟ " ردابہ نے اسی سنجیدگی سے کہا. ماسی ی ی.. بات نکاح کی نہیں ہے.بات اس تحفظ کی ہے جو اس گھر نے اسے دیا." وہ صفائی دے رہا تھا. نکاح.ردابہ دو دن پیچھے چلی گئی تھی.کیا گھور رہی ہو؟ " حیا جب اسے کافی دیر یوں ہی دیکھتی رہی تو ردابہ نے اسے کہا تھا.دیکھ رہی ہوں. کیسے ہمیشہ بے بس لوگوں کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے. مجھے یوں در بدر کے دھکے دلوانے تھے تو وہیں چھوڑ آتا وہ مجھے.یہاں لا کر نکاح کا تماشہ لگانے کی کیا ضرورت تھی. " اس کی آواز اونچی تھی.ماسی.. آپ سے بات کر رہا ہوں میں.. ؟ حمزہ نے اسے ہلایا. ہاں. وہ چونکی.ردابہ کے آنے سے حمزہ خوش تھا. لیکن اس کا یوں حیا کو نکال دینا اسے اچھا نہیں لگا تھا. وہ پریشان تھا. ماسی اس کا گھر نہیں ہے کوئی. اور .. اور .. وہ بیوی ہے میری." اس نے آخری الفاظ منہ میں بڑبڑائے. ردابہ نے سن لیا تھا. حمزہ. اگر کوئی تمہیں تکلیف دے گا میں اسے کبھی اس گھر میں برداشت نہیں کروں گی. شیری کو جب تم لائے میں نے ہمیشہ اسے تمہاری طرح چاہا. کیونکہ تم اس سے پیار کرتے ہو.رہی بات حیا کی. اس نے تمہیں ہرٹ کیا تھا. تم اسے ڈس لائک کر رہے تھے تو میں کیسے اسے اپنا لیتی؟ میرے بچے کو تکلیف دینے والے کو میں کیسے گھر میں رکھوں؟" ردابہ کا لہجہ سخت ہو گیا تھا. ماسی.ماسی.. ماسی.. " حمزہ کا خود پر کنٹرول ختم ہو  رہا تھا.ہاں میں. میں ہی ذمہ دار ہوں. میرے رویے نے آپ کو مجبور کیا. وہ میری ذمہ داری تھی. میں لایا تھا اسے.اس کا لہجہ معمول سے مختلف تھا ردابہ پہلی بار اسے یوں اپنا آپا کھوتے دیکھ رہی تھی وہ اپنا اکھڑتا سانس سنبھال رہا تھا. وہ ردابہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا. ماسی.. پتا نہیں وہ کہاں ہو گی. وہ گھر نہیں گئی. اگر دوبارہ وہ غلط ہاتھوں میں لگ گئی تو؟ میرا بچہ! سب ٹھیک ہو جائے گا. " وہ اس کے بال سہلا رہی تھی. ایک ہفتے بعد ردابہ نے اسے حیا کو لے کر فکر مند ہوتے دیکھا تھا. اس بیچ پتا نہیں وہ کیسے یہ سب اپنے دل میں رکھے بیٹھا تھا. ردابہ کو اب سمایا کی کہی باتوں پر اور یقین ہو گیا تھا.وہ ویسا نہیں تھا جیسا سب کو نظر آرہا تھاردابہ جا چکی تھی.حمزہ نے حیا کو ڈھونڈا تھا. وہ اپنے سر سے یہ بوجھ اتار دینا چاہتا تھا. لیکن وہ اسے کہیں نہیں ملی تھی اس کے دل میں کہیں کسک تھی کہ اس کی وجہ سے ایک اور زندگی خراب ہو جائے گی.وہ بس اس ایک اور پچھتاوے سے بچنا چاہتا تھا. جب حیا نہیں ملی تو وہ تھک ہار کر بیٹھ گیا تھا.فریحہ کو شیری کا آئیڈیا اچھا لگا تھا. وہ چھٹی لے کر کوئٹہ اور وہاں سے زیارت جانے کی پلاننگ کر رہی تھی. علی کے لیے جانا مشکل تھا. لیکن فریحہ کے اصرار پر حمزہ نے علی کا سب کام خود سنبھال کر اسے جانے کے لیے فورس کیا تھا.شیری کوآئے کافی دن ہو گئے تھے وہ بھی واپس لڑکیاں اغوا کرنے والے گروہ سے جا ملا تھا. اب کہ اس کے ساتھ شیروان بھی تھا. بلبل آگئی ہے تو. چنبیلی نے لہراتے ہوئے کہا. وہ بڑے صحن میں لکڑی والے چولہے پر بیٹھی روٹی سینک رہی تھی ہاں آگئی ہوں.شیری نے تالی بجائی تھی.شیروان پہلی بار یوں اس کے ساتھ آیا تھا. شیری کی حرکت دیکھ کر اس کا دل چاہا وہ زور زور سے ہنسے. اور وہ ہنس بھی گیا تھا. یہ کون ہے.چنبیلی خفا ہوئی تھی. شیری نے غصے سے شیروان کو دیکھا.یہ میری سہیلی ہے.اپنے علاقے سے لائی ہوں.شیروان کو اپنی جنس بدل جانے کا افسوس ہوا تھا. وہ دونوں اب نیچے پیڑی پر چنبیلی کے ساتھ ہی بیٹھ گئے تھے. تجھے پتا نہیں ہے یہاں کوئی بھی بی بی حاجن کی مرضی کے بغیر نہیں آتا. " چنبیلی نے شیری کے کان میں کہا.اری تو کیوں فکر کرتی ہے. بی بی حاجن سے میں بات کر لوں گی. بڑا کرارا ٹھمکا لگاتی ہے یہ. " شیری نے چنبیلی کے کان میں آہستہ سے کہا. شیروان یہ سن چکا تھا. کتا. یہ اس نے دل میں کہا تھا.کیا نام ہے تیرا." چنبیلی اپنے ہی انداز میں گویا تھی.پنکی پنبیری." نام بتانے والا شیری تھا.پنکی تو ٹھیک ہے پر یہ پنبیری کیا ہے.چنبیلی کو سمجھ نہیں آیا تھا.اری. وہ ہی پنبیری جو اڑتی پھرتی ہے. بس اس کا ناچ دیکھے گی تو تو بھی مان جائے گی.پنبیری ہے یہ.شیری نے شیروان کے کندھے پر ہاتھ مارا. اور شیروان کا دل چاہا وہ اس کا گلہ دبا دے.تو ہی بولتی رہے گی یا یہ بھی کچھ بولے گی." چنبیلی اب روٹیاں کپڑے میں لپیٹ رہی تھی بول میری پنکی پنبیری. " شیری نے اس کا مزاق اڑایا تھا.ہاں جی بڑا اچھا ناچتی ہوں. شیروان نے ادا سے کہا تھا. شیری اسے اچھے خاصی ٹریننگ کروا کر لایا تھا. اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شیروان, شیری سے زیادہ لچک دکھا رہا تھا.اللہ کی اس کائنات میں ہر چیز کسی خاص مقصد سے ہے حضرت موسیٰ نے دیوار پر چھپکلی دیکھی تو اللہ سے پوچھا. اے اللہ. تو نے چھپکلی کو کیوں بنایا.تو اللہ نے فرمایا.اے موسیٰ ابھی تیرے سے پہلے یہ چھپکلی بھی مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ اے اللہ تو نے موسیٰ کو کیوں بنایا.ڈاکٹر ہارون کرسی پر بیٹھے اپنے الفاظ سامنے والوں کی سماعتوں کی نذر کر رہے تھے. چھوٹے سے اس کمرے میں نو دس لوگ بیٹھے تھے. اس کائنات میں کچھ ایسا نہیں ہے جو بغیر حکمت بغیر مقصد کے پیدا کیا گیا ہو.آپ میں سے کتنے لوگ سوشل میڈیااستمعال کرتے ہیں.سب نے ہاتھ کھڑا کیا تھا. سوشل میڈیا پر بلیوں کی تصویریں بہت شیئیر ہوتی ہیں.از اٹ سو؟؟ وہ روکے. یس. ہلکی آوازیں آئی.میں نے کہا ہر مخلوق کا مقصد ہے تو بلیوں کا کیا مقصد ہے؟ چوہے پکڑنا. وہ آہستہ سے بولی.کمرے میں کھلکھلاہٹ ہوئی تھی.اونچا بولیں. ڈاکٹر ہارون نے دائیں دیوار کے ساتھ تیسری کرسی پر بیٹھی حیا سے کہا. وہ کنفیوز تھی.چوہے پکڑنے کے لیے.وہ دوبارہ لیکن قدرے اونچا بولی تھی.دیٹس دی رائٹ آنسر.؟ انہوں نے حیا کو سراہا. اس کا اعتماد بڑھا تھا.آسٹریلیا کا ایک آئی لینڈ ہے میکیوری آئی لینڈ.وہاں بلیاں بہت ہو گئی تھیں. اور وہاں کے جو سمندری پرندے تھے وہ بلیوں کے شکار کی وجہ سے کم ہوتے جا رہے تھے.فیصلہ کیا گیا کہ بلیوں کو اس آئی لینڈ سے ختم کر دیا جائے. اور ایسا کیا بھی گیا.تو ہوا کہ کہ آئی لینڈ پر خرگوش اور چوہے بہت زیادہ ہو گئے. خرگوشوں نے فصلیں تباہ کرنا شروع کر دی.تو بیٹا. اگر بلیاں نہ ہوتی تو زمین پر چوہے,خرگوش اور دوسرے چھوٹے mammals کی آبادی بڑھ جاتی. خرگوش فصلیں تباہ کر دیتے. چوہے اناج کھا جاتے.آپ کو پتا ہے ایک خرگوش ایک سیزن میں 100 بچے پیدا کرتا ہے. اور ایک چوہوں کے جوڑے سے ایک سال میں دو ہزار چوہے پیدا ہوتے ہیں. اور یہ ہی دو ہزار چوہے اگر تین سال اور رہیں تو ہاف بلین چوہے اور پیدا ہوں.سب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھی.غرض اگر بلیاں نہ ہوں تو ایک دو سال میں ہی پوری زمین چوہوں سے بھر جائے.وہ ان کو اور حیران کر رہے تھے.چوہے چونکہ گندگی میں رہتے ہیں تو ان کے آس پاس ہونے سے ہی مہلک بیماری پھیلتی ہیں. طاعون سر فہرست ہے. اور اگر ان کی آبادی یوں ہی بڑھتی رہے تو انسانوں کے لیے اناج نہیں بچے گا اور ہم سب بھوک سے مر جائیں گے. وہ سانس لینے کو رکے تھے.سر اگر ہر چیز کا کوئی مقصد ہے تو چوہوں کا کیا مقصد ہے پھر. حیا اب پر اعتماد تھی.میں یہ ہی  ایکس پیکٹ کر رہا تھا وہ مسکرائے. بیٹا پہلا تو یہ کہ چوہے مردار خور ہیں. اور دوسرا یہ سورس ہیں دوسرے جانوروں کی خوراک کا. سانپ اور مختلف پرندے وغیرہ. " وہ خاموش ہو گئے.اچھا چلیں اس سے بھی چھوٹی مثال لے لیتے ہیں.آپ نے شہد کی مکھی دیکھی ہے؟کتنی چھوٹی سی ادنیٰ سی مخلوق ہے. ہمارے گھروں میں اس کا شہد بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے.شفا ہے اس کے شہد میں.  کیا اس شہد کی مکھی کا مقصد شہد بنانا ہی ہے؟ ڈاکٹر ہارون نے پہلو بدلا.دائیں طرف تیسری کرسی پر ہاتھ میں کاپی پنسل پکڑے وہ پوری طرح ان کی طرف متوجہ تھی بیٹا. آپ کسی سپر مارکیٹ میں جائیں. وہاں موجود ون تھرڈ فوڈ اس شہد کی مکھی کی وجہ سے ہے. اگر یہ مکھی نہیں ہوتی تو پولینیشن نہیں ہوتی اور پولینیشن نہیں ہوتی تو 33 فیصد فصلیں اور نوے فیصد پودے نہ اگتے.اگر یہ شہد کی مکھیاں نہ ہوں یا کم ہو جائیں تو ہمارا ایکو سسٹم تو ختم ہو جائے گا.بتانا یہ مطلوب ہے کہ ہر مخلوق کے اس دنیا میں ہونے کا مقصد ہے.انسان ساری زندگی اس دنیا میں گزار لیتا ہے لیکن اپنے اس دنیا میں آنے کا مقصد پہچاننا تو دور کی بات وہ خود کو بھی نہیں پہچان پاتا.وہ کھڑے ہو گئے تھے.میں آپ سے ہوچھتا ہوں. ہو آر یو؟" آپ کہ ممکنہ جوابات کیا ہوں گے؟مائی نیم از دس.آئی ڈو دس جاب.آئی لیو ان اسلام آباد. وغیرہ. یس اور نو؟انہوں نے حمایت چاہی.یس.. " دوبارہ ہلکی آوازیں آئی تھیں.سو یور نیم از ایس وائی زی دیئر از این ادھر پرسن ود دی سیم نیم.لونگ ان دی سیم سٹی.ناؤ واٹ ول یو ڈو؟ آپ میں اور اس انسان میں کیا فرق ہے؟" اب کہ ان کی آواز قدرے بلند تھی.شکل کا کسی نے ہلکے سے کہا تھا. کمرہ چھوٹا تھا آواز ڈاکٹر ہارون کو پہنچ گئی تھی.شکل کا؟ کون دیکھ رہا آپ کا چہرہ؟ میں.؟ آپ کے ساتھ بیٹھا انسان. ؟آپ کی فیملی, دوست. بس؟ کوئی اجنبی آئے.آپکا چہرہ دیکھے تو کیا یہ آپکا تعارف ہو گا؟ اگر یہ آپکا تعارف ہے تو وہ آپ سے کیوں پوچھتا ہے ہو آر یو. کون ہیں آپ؟اور اگر آپ کی شکل جواب ہے اس سوال کا تو جب آپ پیدا ہوتے ہیں تو آپ کا نام کیوں رکھا جاتا ہے؟" توہ سانس روکے بولے جارہے تھے.  کمرے میں خاموشی تھی. اتنے سوالوں کا جواب کوئی نہیں دے سکا تھا. کون ہیں وہ. وہاں موجود سب لوگ اس سوال کا جواب جاننا چاہتے تھے. حیا کو لگا وہ واقعی خود کو نہیں جانتی. وہ اس وقت اپنے آپ کو اجنبی لگی تھی.