زکیہ اور مولوی صاحب



 

نماز پڑھ کر ابھی امام مسجد مصلے پر بیٹھے تھے کہ اسلم صاحب آ گے

 بڑھےاور امام صاحب کا ہاتھ پکڑ کر چومنے لگے اسلم صاحب ایک صاف 

دل انسان تھےپانچ وقت کے نمازی تھے اور امام صاحب سے ان کا 

پرانا تعلق تھا وہ جب بھی ملک واپس آتے امام صاحب کی دعوت بھی 

کرتےاور ان کے لیئے تحفے بھی لے کر آتے وہ پچھلےپندرہ سالوں سے دوبئی 

میں مقیم تھے وہاں ان کا زاتی کاروبار تھا دولت کے ساتھ ساتھ اللہ نے 

ان کو کھلا دل بھی دے رکھا تھا واہ بھئی اسلم صاحب آپ کب 

تشریف لائے ؟امام صاحب مصلے سے اٹھے اور اسلم صاحب کو گلے 

لگا لیا مولوی صاحب کل رات کو ہی پہنچا ہوں بچوں کی یاد ستا رہی

 تھی سوچا گھر چکر ہی لگا لوں دنیا کے کام تو ختم ہی نہیں ہوتے 

امام صاحب سے حال چال پوچھنے کے بعد اسلم صاحب نے امام صاحب

 کو دعوت دی کہ آج شام کا کھانا آپ ہمارے گھر کھائیں گے عشاہ 

کی نماز ساتھ پڑھی اور پھر امام صاحب کو کھانے کیلئے اپنے ساتھ لے آئےامام

 صاحب پینتیس سال کے جوان آدمی تھے وہ امامت کے ساتھ ساتھ تعویز

 دھاگے کا کام بھی خوب کرتے تھے اور اسلم صاحب کے ان سے زیادہ 

تعلقات بھی اسی وجہ سے تھے کیوں کہ اسلم صاحب کے کاروبار میں 

جب بھی کوئی پریشانی آتی تو مولوی صاحب ان کو تعویز دھاگہ کر 

دیتے جس سے ان کا مسلہ حل ہو جاتا اسلم صاحب کی فیملی میں

 ان کی دو بیٹیاں اور جوان بیوی زکیہ تھی بیٹیاں تو ویسے بھی امام صاحب

 کے پاس قرآن پڑھنے جاتی تھیں اور زکیہ امام صاحب کو بھائی جان کہہ 

کر پکارتی تھی اس لیے امام صاحب جب بھی گھر جاتے اسلم صاحب 

ان کو سیدھا اندر لے جاتے گھر میں داخل ہوئے تو زکیہ نے ان کی خوب 

آؤ بھگت کی اسلم صاحب اور امام صاحب نے مل کر کھانا کھایا پھر 

اسلم صحب بولے زکیہ وہ سامان تو لے کر آؤ جو مولوی صاحب 

کیلئے دوبئی سے لے کر آیا ہوں زکیہ کمرے سے مصلا کمبل گھڑی عطر 

وغیرہ ایک ساتھ ہی لے کر آئی زکیہ نے سارا سامان امام صاحب کو

 مسکراتے ہوئے پکڑایا تو زکیہ کا ہاتھ امام صاحب کے ہاتھ کے ساتھ ٹچ 

ہو گیا تو مولوی صاحب کی نظر فورا    زکیہ کی طرف اٹھی تو انھوں نے

 اپنا دھیاں ہٹایا اور بولے یہ تو اسلم صاحب کی مہربانی ہے ورنا آج کے

 مصروف دور میں کون کسی کو یاد کرتا ہے پھر تھوڑی دیر گپ شپ لگانے

 کے بعد مولوی صاحب گھر واپس آگئے لیکن وہ لمہ ان کے زہن میں 

 نقش ہو چکا تھا جب زکیہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے ٹکرایا تھا اور اوپر 

سے شیطان بھی پورا زور لگا رہا تھا بحرحال دن گزرتے رہے ایک دن 

ایسا آیا کہ اسلم صاحب نے مولوی صاحب کو بتایا کہ میں آج رات کی 

فلائٹ سے واپس دوبئی جا رہا ہوں  دیکھ لو اسلم صاحب وقت 

گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا آپ کو آئےچار ماہ گزر گئے جی مولوی صاحب وقت

 بہت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے اسلم صاحب مولوی صاحب کو ملے

 اور اسی رات دوبئی چلے گئے ان کے دوبئی جانے کے بعد ایک دن زکیہ نے 

مولوی صاحب کو کال کی تو وہ بہت پریشان تھی بھائی جان میں

 زکیہ بات کر رہی ہوں آپ اگر فارغ ہیں تو تو تھوڑی دیر ہمارے گھر 

آ جایئں مجھے آپ سے کوئی ضروری کام ہے جی آپ فون رکھیں میں 

تھوڑی دیر تک آتا ہوں امام صاحب تھوڑی دیر کے بعد اسلم صاحب 

کا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے زکیہ بیبی نے بنا پوچھے ہی دروازہ کھول دیا 

امام صاحب کو دیکھتے ہی اس کی جان میں جان آگئی وہ امام 

صاحب کو اندر لے گئی اس کے چہرے پر پریشانی واضع دکھائی دے 

رہی تھی وہ گھر میں اکیلی تھی اور بیٹیاں سکول میں تھیں زکیہ نے 

امام صاحب  کاہاتھ پکڑا اور روتے ہوئے بولی خدارا اسلم صاحب کو بچا 

لیں کل رات سے ان کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے کسی حاسد نے ان 

کی دکان پر منشیات رکھ کر پولیس کو کال کر دی  اور پولیس ان کو 

پکٹ کر لے گئی ہے اگر انھیں سزا ہو گئی تو ہم جیتے جی مر 

جائیں گے اور ان کا سارا کاروبار بھی تباہ ہو جاے گا زکیہ روتے روتے 

امام صاحب کے پیروں میں بیٹھ گئی زکہی  کی بے بسی دیکھ کر امام 

صاحب بولے تم پریشان مت ہو اسلم صاحب کو میں کچھ نہیں ہونے 

دوں گا تمیں ایک تعویز لکھ کر دیتا ہوں وہ تم اپنے چھت پر لٹکا دو

 انشااللہ اسلم صاحب بہت جلد باہر آجائیں گے تعویز لٹکانے 

کے تین دن بعد اسلم صاحب کو پولیس نے چھوڑ دیا لیکن زکیہ اوقر 

امام صاحب کا رشتہ شیطان نے تبدیل کر دیا تھا یہ 

واقع لکنے مطلب یہ ہر گز نہیں کی سارے مولوی حضرات ایسے ہوتے ہیں